اور جو کوشش کریں گے ہمارے لیے۔ ہم لازماً اُنکی رہنمائی کریں گے اپنی راہوں کیطرف۔ اور بےشک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
سورة العنکبوت (۲۹) آیت ۶۹
پہلے اپنا تعارف۔ میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ تبلیغی جماعت میں گزارا۔ جوانی سے لے کر ادھیڑ عمر تک۔ میں جماعت کی سوچ اور عمل سے باخوبی واقف ہوں۔ انجان سے ایک فعال کارکن تک کا میرا سفر کیسا رہا۔
جب آئنیے میں آپ خود کو دیکھتے ہو۔ تو ہر عکس درست دِکھتا ہے۔ لیکن آپ اگر خود کو آئینے کے اندر اُتار کر دوسری طرف سے دیکھو۔ تو آپکو اندازہ ہو گا کہ ہر شہ کو پلٹ دیا گیا ہے۔ جس منظر کو آپ نے پہلے حقیقت جانا۔ وہ درحقیقت اشیاء کو دیکھنے کا محض ایک انداز تھا۔ آپکی عقل نے اُس نظر پر ہی اپنی سوچ کی بنیاد رکھی۔ تو سچ یا حقیقت ہم کس کو کہیں۔
حقیقت تک وہ ہی پونچھ پاتے ہیں جو دل کی آنکھ کھولتے ہیں۔ جنکی آنکھ مسلسل ایک ہی بت کی عبادت پر ساکت نہیں ہوتی۔ وہ ہی آئینے کے اُس پار دیکھ پاتے۔ صرف وہ ہی نام نہاد حقیقت پر منبی خیالات کی چھانٹ کرنا جانتے ہیں۔ وہ ہی سچ کو قریب سے پہچانتے ہیں۔
یہ میرا ایک انجان سے تبلیغی جماعت کو جاننے تک کا سفر ہے۔ اور کیسے میں نے آئنیے کو دوسری طرف سے دیکھنا سیکھا۔
آغاز
میٹرک کے امتحانات سے میں ابھی کچھ عرصہ قابل فارغ ہوا تھا۔ فارغ اؤقات میں کرکٹ، فلمز یا وڈیو گیمز ہی میرے مشاغل تھے۔ لگے ہاتھوں یوں ہی مقامی مسجد میں ہر روز نماز کے لیے چلا جاتا۔ فجر سے عشاء تک کی اکثر نمازیں میں باجماعت ادا کرتا۔
یوں تو نماز جمعہ میرا معمول تھا لیکن اب ہر روز باجماعت نماز کے لیے میں مسجد میں موجود ہوتا۔ مسجد کے ماحول میں مجھے مختلف لوگوں سے سلام دعا کا موقع ملا۔ اُن میں سے اکثر لوگ سماجی حیثیت میں منفرد مقام پر قائم تھے۔
اکثر لمحات کھیل سے نماز اور پھر کھیل کے درمیان گزر جاتے۔ میٹرک کے امتحان سے فارغ بچہ آخر اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ بےفکری کا دور تھا۔ اپنے آپ کی سمجھ تو دور وقت کا ادراک رکھنا ہی ممکن نہ تھا۔
ہماری مسجد متوسط سے خوشحال علاقہ کے بیچ میں آباد ہے۔ اسکی ایک سے زائد منزلیں ہیں۔ اسکی ساخت پر بھی اچھا خاصہ پیسہ صرف ہوا تھا۔ اسلئے جب بھی کوئی بیرونی جماعت آتی تو وہ اکثر یہاں پر خوشدلی سے قیام کرتی۔ اُس وقت مجھے یہاں پر عرب، امریکہ اور پاکستان کے مختلف حصوں سے آئی جماعتوں سے ملنے کا موقعہ ملا۔
یہ وہ وقت تھا جب میں نے پہلی مرتبہ تبلیغی جماعت کا نام سنا۔ تبلیغی جماعت کے نام کو سواء میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ البتہ ہمارے ایک قریبی رشتہ دار جو ہمسائے بھی تھے۔ وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک عرصہ دراز سے منسلک تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ ہماری مقامی مسجد میں اُن تبلیغی بھائی کی ایک خاص حیثیت ہے۔ وہ علاقہ کے امیر (تبلیغی جماعت کا مقامی رہنما) کے نیچے منتظم تھے۔ امیر صاحب اگر کہیں جماعت کے ساتھ گئے ہوں تو تبلیغی بھائی ہی کو مسجد میں امیر کا درجہ حاصل تھا۔
ہمسائے اور رشتہ دار ہونے کی نسبت سے اکثر ہماری اُن سے سلام دعا رہتی تھی۔ کبھی کبھار وہ یوں ہی ہمارے ساتھ عصر یا مغرب کے قریب کرکٹ میچ بھی کھیل لیتے۔ ہمارے یہ تبلیغی بھائی ہماری عمر سے کچھ پندرہ یا بیس سال زیادہ بڑے تھے۔
ذاتی طور پر میری تبلیغی جماعت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسلئے ہمارے تبلیغی بھائی جب ہم سے کوئی تبلیغ سے متعلق بات کرتے۔ تو ہم میں سے اکثر لوگ اُنکی بات کو ہنس کر ٹال دیتے۔
میرا ساتھ میرا دوست بھی تھا۔ جو میرے ساتھ ہی میٹرک کے امتحانات سے فارغ ہوا تھا۔ کرکٹ بھی ہم اکثر اکھٹے ہی کھیلتے تھے۔ میں اُس کو بچن سے جانتا تھا۔ ہم ایک ساتھ ہی پلے بڑے۔
میرا دوست تبلیغی جماعت میں میری طرح کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اُس کے لیے کسی کو بات کو "نہیں” کرنا بہت مشکل تھا۔ ابتداء میں تو تبلیغی بھائی کی بات کو اُس نے میری طرح مذاق میں نظرانداز کیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں نے دیکھا کہ تبلیغی بھائی نے میرے دوست کو قائل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ مجھے وقتاً فوقتاً اب احساس ہونے لگا تھا کہ وہ تبلیغی بھائی کی کسی فضول سی بات پر بھی مسکرا دیا کرتا۔ جس تبلیغی بھائی کی جماعت کے متعلق بات کو ہم مذاق میں نظرانداز کر دیا کرتے تھے۔ اُس ہی بات پر اب وہ خاموش ہو جاتا۔ وہ تبلیغی بھائی کی بات کو سنتا، چاہے وہ اُس کو سننا چاہتا، ماننا چاہتا یا نہیں۔
تبلیغی بھائی یوں اکثر کرکٹ کا میچ کبھی وقت سے کچھ زیادہ دیر پہلے ہی ختم کروا کر میرے دوست کو اپنے ہمراہ مسجد کی طرف لے جاتے۔ اُن کا انداز اس قدر ذلیل زبردستی کی طرح کا ہوتا کہ ہم اکثر اُن کو کہتے ابھی تو نماز میں وقت ہے۔ لیکن وہ ایک نہ سنتے اور میرے دوست کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ اس طرح ہمارا کھیل ادھورا کا ادھورا رہ جاتا۔
مسجد میں نماز کے لیے تو ہم پہلے ہی جا رہے تھے۔ لیکن اب جاتے ہوئے احساس ہوتا تھا کہ جیسے ہمیں زبردستی سکول کی تعلیم کے لیے بھیجا یا کھینچا جا رہا ہے۔ نماز پڑھنے میں جو مزہ پہلے تھا وہ اب ایک عمل یا سخت کام جس سے آپ بیزار ہو اُس جیسے احساس میں بدل چکا تھا۔ نماز تو بہرحال ہم پھر بھی مسجد ہی میں ادا کرتے۔
اسی اثناء میں میٹرک کا نتیجہ آ گیا۔ میرے دوست کی کچھ مضامین میں کمپارٹ (یا سَپلی) آ گئی۔ میں نے انٹرمیڈیٹ کے لیے قریبی کالج میں داخلہ لے لیا۔ اُسی کالج میں میرے ساتھ میرے دوست نے داخلہ لے لیا۔ کیونکہ سَپلی تو وہ اپنی تعلیم کے دوران بھی کلئیر کر سکتا تھا۔
تعلیم کے دوران ہمیں کرکٹ کھیلنے کا وقت تو نہیں ملا۔ لیکن نماز کی عادت جو پڑ چکی تھی۔ اس کے لیے کالج یا ٹوشن سنٹر میں جو کوئی قریبی مسجد یا مقامی جماعت قائم ہو۔ میں اُن کے ساتھ ہی نماز ادا کر لیتا۔
اس کے برعکس میرا دوست اکثر ہماری مقامی مسجد ہی میں نماز ادا کرتا۔ کیونکہ تعلیم سے واپسی پر اُسے اپنے سَپلی امتحانات کی تیاری کرنی ہوتی۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ قریب چھ ماہ جب سے تبلیغی بھیا نے میرے دوست پر محنت شروع کی تھی۔ اُسکا نتیجہ آ گیا۔ میرا دوست تبلیغی بھائی کے اسرار پر اپنے پہلے سہ روزہ کے لیے روانہ ہو گیا۔
یہ خبر مجھ تک بعد ہی میں پونچھی۔ میں نے اپنے دوست کو مبارکباد دی۔ کیونکہ وہ اس عمل پر جانے سے خوش تھا۔ میں جب بھی اپنی مسجد میں اب نماز کے لیے آتا تو دکھتا کہ تبلیغی بھیا اور میرا دوست اپنے کچھ تبلیغی ساتھیوں کے ساتھ نماز کے بعد اپنا ہی ایک علیدہ گروہ بنا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ اگر میں اُن کو سلام بھی کرتا تو وہ اُس کا جواب کسی خاص توجہ سے نہیں دیتے تھے۔ جواب بھی ایسا ہوتا کہ اسلام علیکم سے تم ہمارے گروہ میں شامل ہونے کی کوشش مت کرو۔ یہ اَن کہی باتیں شاید زبان سے ادا نہیں ہوتیں۔ لیکن احساسات اور اشاروں کی زبان سے خیالات دوسروں تک پونچھ جاتے ہیں۔
میرا دوست اور تبلیغی بھائی جس بھی گفتگو میں مصروف ہوں۔ وہ دوسروں کو اس سے علیدہ ہی رکھتے۔ اس ماحول سے میری زہنی نفسیات کو اکثر ٹھیس پونچھتی۔ کیونکہ اگر تو میں نے اپنے دوست کے ساتھ کچھ برا کیا ہو۔ تو وہ اور میں علیدہ ہوں۔ نماز تک تو میں ان سب کے ساتھ، ایک ہی جگہ باجماعت ادا کرتا ہوں۔ میرا بھی وہ ہی خدا ہے۔ جو ان کا خدا ہے۔ میں بھی اُس ہی رب کی عبادت کرتا ہوں۔ جس رب کی عبادت یہ سب کرتے ہیں۔ اور اُس رب کی عبادت بھی ہم ایک ساتھ ایک ہی مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ تو پھر ہم میں تفریق کیسی؟
اب میں جب بھی اپنے دوست سے ملتا تو اُس کی اکثر بات تبلیغ سے متعلق ہوتی۔ جیسا کہ تبلیغی بھائی نہ اُس کے زہن سے کھیل کر۔ مجھ تک پیغام رسائی کی ہو۔ کہ تم اسے بھی تبلیغی جماعت کی طرف لاؤ۔ کیونکہ اب جب بھی میں اُس سے بات کرتا تو مجھے ایسا لگتا کہ میں تبلیغی بھائی سے بات کر رہا ہوں۔ چہرا تو میرے دوست کا ہوتا مگر اُس کے اندر زہن اور زبان تبلیغی بھائی کی چل رہی ہوتی۔
اب تبلیغی بھائی جب میرے دوست کی موجودگی میں میرے سے تبلیغ کے متعلق کچھ بات کرتے۔ تو اُن کا انداز ایسا ہوتا کہ مجھے بتا رہے ہوں کہ تم تبلیغی نہیں ہو۔ تم ہم میں سے نہیں ہو۔ تم مسلمان تو ہو مگر ہم تم کو اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ اور جب تک تم ہماری جماعت میں شامل نہیں ہو جاتے۔ اور ہماری طرح اپنے زہن اور زبان کو استعمال میں نہیں لاتے۔ تب تک تم میں اور ہم میں ایک دیوار ہے۔
بعد میں جب میں نے تبلیغی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ تو میں سمجھ پایا کہ ہم تبلیغی جب اکثر کسی کو پہچان لیں۔ کہ اس مسلمان کا زہن سادہ ہے۔ تو پھر ہم اُس کے زہن پر یوں ہی وار کرتے ہیں۔ ہم سے سمجھتے ہیں کہ جو ہماری جماعت کا نہیں وہ کسی راہ پر نہیں۔ اُس کو اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ وہ مسلمان تو ہے مگر اُس کو اسلام کے قوائد کا درست طریقے سے علم نہیں۔ اگر وہ ہمارے ساتھ آ جائے تو ہم اُس کی اصلاح کر سکتے ہیں۔
جب بھی میں مسجد میں نماز کے لیے آتا۔ تو نماز کے بعد تبلیغی بھائی اور اپنے دوست وغیرة کے گروہ کو دیکھتا۔ اس سے میرے زہن پر نفسیاتی تناؤ بڑھتا۔ یہ سب ماحول میرے زہن پر گہرے نقش چھوڑ رہا تھا۔ میں سماجی طور پر قبولیت کے لیے خود کو اُن جیسا کرنے کی تمنا کرنے لگا۔
شاید یہ ہی وجہ تھی کہ ایک عرصے بعد میں نے خود کو قائل کر لیا۔ کہ میں بھی سہ روزہ لگانے تبلیغی جماعت کے ساتھ جاؤں گا۔ میں نے اُن ہی کی زبانوں نے نکلے الفاظ کو اپنی سوچ میں چاہتے یا ناچاہتے ہوئے جگہ دی۔ کہ میرا ایسا کرنا تو نبیوں والا کام ہے۔ آخرکار میرا دوست تو پہلے ہی سہ روزہ لگا چکا تھا۔
میں نے اپنے گھر والوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ اسلئے کہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے دوران میرے لیے اجازت کے بغیر تبلیغ کے لیے گھر چھوڑنا ممکن نہ تھا۔ گھر میں پہلے بھی کچھ مسائل چل رہے تھے۔ میں نے گھر والوں کو قائل کرنے کے لیے اُن مسائل کا سہارا لیا۔ جب میں دین کے کام کے لیے نکل رہا ہوں تو وہاں جا کر اپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ سے دعا کروں گا۔ میرا ایسا کہنا کسی حد تک اپنے گھر والوں کی نفسیات کے ساتھ کھیلانا تھا۔ جیسا تبلیغی بھائی کا ہماری مسجد میں میرے دوست سمیت دیگر تبلیغوں کا ایک گروہ بنا کر علیدہ اپنی نشتیں قائم کر کے دوسروں کی نفسیات کے ساتھ کھیلنا۔ شاید یہ سب نفسیات کا ہی کھیل تھا جس نے مجھے خود کو سہ روزے کے لیے قائل کر لیا۔
تبلیغی جماعت کے ساتھ
آخرکار گھر والے راضی ہو گئے اور میں نے مسجد میں تبلیغی جماعت کے ساتھ اپنے پہلے سہ روزے کے لیے وقت مقرر کر دیا۔ سہ روزہ کی صبح، سفر سے قبل میری ماں نے مجھے پیار بھری آنکھوں سے دیکھا۔ بہت سی دعائیں دیں۔ ۵۰۰ روپے کا جیب خرچ دیا۔ میں نے ضرروی سامان باندھا اور فجر کے وقت اپنا سامان لے کر مسجد پونچھ گیا۔
نماز فجر کے بعد جماعت کی تشکیل شروع ہو گئی۔ جو افراد جماعت کے ساتھ نکل رہے تھے۔ اُن سے بات چیت ہوئی۔ سب نے اپنا اپنا احوال بیان کیا۔ کئیوں نے ذکر کی فضیلت پر اپنی طرف سے کچھ باتیں سنائیں۔
گاؤں میں — پہلا سہ روزہ
صبح قریب سات بجے تک ہم مسجد میں ہی رکے رہے۔ ہم انتظار کرتے رہے کہ جن افراد نے سہ روزے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے وہ پونچھ جائیں۔ کچھ لوگ جنہوں نے وعدہ کیا تھا لیکن نہ آ سکے اُنہوں نے موبائل پر اپنا عذر پیش کر دیا۔ باقی ساتھ بجے تک اکثر افراد جو ہماری جماعت میں جانے والے تھے آ موجود ہوئے۔ وہاں سے ہم نے گاڑی پر شہر کے باہر ایک گاؤں سے منسلک مسجد کے لیے روانہ ہو گئے۔
مسجد پونچھے تو وہاں پر مذید کچھ ساتھوں شامل ہوئے۔ امیر صاحب بھی اُن ساتھیوں میں سے ایک تھے۔
جماعت کے امیر پہلے ہی کئی سال اس کام میں صرف کر چکے تھے۔ اِس ہی کام میں شاید اُنکی ڈارھی کے بیشتر بال سفید ہوئے۔ تبلیغ کے ماحول اور اسکے عمل سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ امیر صاحب سماج کے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی ذاتی حیثیت میں وہ کسی چھوٹے سے کاروبار سے منسلک تھے۔ اِس مرتبہ سہ روزے کے لیے وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو بھی ساتھ لائے تھے۔ جبکہ اپنے کاروبار کی دیکھ بھال کے لیے وہ اپنے بڑے بیٹے کو چھوڑ آئے تھے۔
شروع میں تو مجھے اپنی ماں اور گھر بہت یاد آیا۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد میں اس نئے ماحول میں کھو گیا۔
جماعت میں سب لوگ میرے لیے نئے تھے۔ ان میں سے پہلے میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ ہاں ایک ساتھی قریبی علاقے سے تھا۔ لیکن میری اُس سے اِتنی کوئی بات چیت نہیں تھی کہ کہہ سکوں کہ میں اُسے جانتا ہوں۔
جمعہ کا روز تھا۔ امیر صاحب نے سب کو مسجد کے احاطے میں بلایا۔ ہم سب ایک دائرے میں بیٹھ گئے۔ ہر ایک نے اپنا تعارف کروایا۔ ہم نے ایک دوسری کی ناموں سے جان پہچان کی۔
امیر صاحب نے آخر میں کہا کہ یہ دین کا کام ہے۔ باہر جو دوست آپ کو ملتے ہیں وہ سب عارضی ہوتے ہیں۔ اس کام میں جن کے ساتھ آپ وقت گزارتے ہو۔ وہ ہی آپ کے دنیا اور آخرت میں اصلی دوست ثابت ہوتے ہیں۔ ان ہی سے آپ کا تعلق قائم رہتا ہے۔
وہ اور بات ہوئی کہ اُس جماعت کے اکثر افراد کی شکلوں کو میں نے دوبارہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ دعا یا سلام تو ایک طرف دوستی تو بہت دور کی بات ہے۔ اب میں جب پلٹ کر ان باتوں کو سوچتا ہوں۔ تو سمجھ میں آتا ہے کہ شاید انسان جب کسی خاص ماحول میں ہو۔ تو اُس کی سوچ وہاں کی باتوں کو سوچنے یا سمجھنے سے پہلے ہی قبول کر لیتی ہے۔ اسلئے جو کچھ میں نے سنا۔ اُسے میں نے سوچے سمجھے بغیر زہن میں سچ سمجھ کر اُتار لیا۔ تب میں اس سے برعکس سوچ بھی کیسے سکتا تھا۔ لیکن سوچوں میں باتیں رہ جاتی ہیں۔ پھر کبھی خدا کا حکم ہو تو وہ انسان کو بہتر سمجھ عطا کرتا ہے۔ ورنہ اکثر لوگ تو سنی سنائی باتوں ہی کو سچ مان کر اپنا لیتے ہیں۔ وہ کبھی یہ سوچتے ہی نہیں کہ شاید یہ سب باتیں کانوں سے کانوں تک پونچھی افواہوں کے سواء کچھ نہیں۔
امیر صاحب چونکہ مسجد کے امام سے زیادہ بزرگ شخصیت تھے۔ اسلئے امام مسجد نے اپنا مقام چھوڑ کر امیر صاحب کو خطبہ دینے کو کہا۔ جو اُس ایک کمرہ کی مسجد میں لاوڈسپکیر پر امیر صاحب نے خود ایک گھنٹے تک سنایا۔ مسجد سے باہر بھی لوگوں کی ایک کثیر تعداد جمع ہو چکی تھی۔ میں نہ بھی نماز جمعہ وہیں پر ادا کیا۔
اگلے روز ہم تبلیغی جماعت کی تعلیم سے گزرے۔ جیسا کہ آخری دس سورتوں کا رٹا لگانا۔ پانچ نکات کو یاد کرنا۔ فضائل اعمال سے کچھ حکایات پڑھ کر سنانا۔ فضائل کے شوق کو اُبھارنے کے لیے فضائل کی فضیلت پر بات کرنا۔
ظہر سے پہلے امیر صاحب نے مسجد کے ممبر کے قریب اپنی ایک نشت قائم کی۔ جس میں جماعت کے اکثر ساتھی اُن کے اردگرد بیٹھ گئے۔ امیر صاحب نے درس کا آغاز کر دیا۔ جس میں وہ احادیث، واقعات اور صحابہ کے نام سے مشہور باتیں بیان کرتے جاتے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضہ کی زندگی پر تفصیل سے قریب آدھا گھنٹہ بات ہوئی۔ جس میں اُن کے خاتم النبین محمد رسول اللہ سے رشتے اور اُن کی اسلام کے لیے خدمات اور نیک اعمال پر باتیں شامل تھیں۔
حضرت ابوبکر رضہ پر جب بات ختم ہونے کے قریب تھی تو امیر صاحب کے اردگرد کچھ ساتھی رونے لگ پڑے۔ یہ دیکھ کر امیر صاحب کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ لیکن وہ پھر بھی بات کرتے رہے۔ جو ساتھی ابھی تک روئے نہیں تھے امیر صاحب نے اب اپنے اردگرد اُن ساتھوں کی طرف اپنا چہرہ کر کے بات کو طول دے کر کھینچنا شروع کر دیا۔ وہ ایک ایک جملہ کو یوں بیان کرتے کہ ہمیں اُن کی بات کی قدر کا احساس ہو۔
میرے لیے یہ سب کچھ بہت مشکل تھا۔ کیوں کہ اؤل تو یہ میرا پہلا سہ روزہ تھا۔ اور دوسرا یہ کہ میں سمجھتا تھا کہ بغیر کسی مقصد کے کسی بھی شخصیت کے متعلق بات کر کے دوسروں کو اُبھارنا بےمعنی ہے۔ جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔ میرے پر گروہی دباؤ جس کی بدولت میں آج تبلیغی جماعت کے سہ روزے تک پونچھا۔ ایک خاطر خواہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت کا گروہی دباؤ میری اپنی مسجد میں موجود میرے دوست، تبلیغی بھائی اور ساتھیوں کا تو نہیں۔ لیکن یہاں پر بھی وہ ہی اصول کارفرما تھا۔ جو میرے احساسات کو زہنی تناؤ میں بدل رہا تھا۔
میں ہرگز ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ یہاں پر موجود تبلیغی بھائی مجھے کسی بھی طرح اپنے سے الگ پائیں۔
اس کے لیے میں نے اپنے زہن پر شدید زور دیا اور خود کو رونے پر آمادہ کر لیا۔ روندی سی صورت بنا کر آنکھوں سے کچھ آنسو ٹپکائے۔ میں نے یقینی بنایا کہ امیر صاحب اور دیگر ساتھی میری روندی صورت کو دیکھ لیں۔ میرا رونا اُن کے لیے اس بات کا ثبوت ہو کہ میں بھی اُن ہی جیسا ایک اچھا مسلمان ہوں۔ وہ میرے ایمان پر شک نہ کریں۔ وہ میری شمولیت کو اپنے گروہ کے اندر اچھی نگاہ سے دیکھیں۔ مجھے اپنا سمجھیں۔
جب امیر صاحب نے دیکھا کہ اکثر افراد نے آنسو بہا دیے ہیں۔ تو اُنہوں نے ایک شفیق نما مسکراہٹ سے اپنا درس لپیٹ دیا۔ ہمیں ذکر کرنے کو کہا اور خود مسجد کے ممبر کی جانب منہ کر کے ذکر میں مصروف ہو گئے۔
مجھے لگا کہ اگر میں اُس وقت آنسو نہ بہاتا تو شاید امیر صاحب مجھے اچھی نگاہوں سے نہ دیکھتے۔ کیونکہ اُن کی محنت کا مقصود تو ساتھیوں کے احساسات اور جذبات کو تڑپا کر ایمان کو زندہ کرنا تھا۔ آنسوں کا نکلنا اُن کی بصیرت میں ہمارا ایمان اور اُنکے پراثر کلام کی دلیل ثابت ہوا۔ جو نہ رو سکے اُنکو ہم نے اپنے سامنے کچھ نادم سا پایا۔
یہ شرمندگی کا پہلو افراد کو جماعت کے طریق پر چلانے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ورنہ آپ کسی کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتے۔ لیکن جب آپ کسی کو ایسے ماحول میں پھینکتے ہو۔ جہاں پر وہ کسی عمل کہ نہ کرنے پر شرمندہ ہو۔ تو وہ شخص ناچاہتے ہوئے بھی وہ عمل ازخود ایسے کرتا ہے جیسا کہ وہ عمل اُس کی اپنی ذات سے صادر ہو۔
اب میں جب اُس سسکیوں بھرے آنسو بہانے کے عمل کے متعلق سوچتا ہوں۔ تو سمجھ میں آتا ہے کہ میرا ایسا کرنا گروہی تناؤ کے سبب ہوا۔ میں خود چاہتا تھا کہ گروہ کا حصہ دِکھوں۔ تبلیغی جماعت میں یہ زہنی تناؤ جو جماعتی حیثیت میں پایا جاتا ساتھوں کو کسی عمل کے کروانے میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ میرے دوست کا سہ روزہ پر جانا اور پھر تبلیغی بھیا کا ہماری مسجد میں اپنا ایک علیدہ گروہ بنا کر ایک طرف گروہ میں چھم گویاں کرنا۔ یہ سب تفریق میرے زہن میں تناؤ کی تخلیق کا سبب بنی۔
سہ روزے کا وقت یوں ہی بیت گیا۔ لمحات کا احساس بھی نہ ہوا۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں تبلیغی جماعت کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا۔ لیکن اب میری سوچ لاشعوری طور پر خود کو تبلیغی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے پر قائل کر چکی تھی۔ میرے اندر تبلیغی جماعت کے فعال کارکن کی حیثیت سے جزبات اپنی جڑ پکڑ چکے تھے۔ جب میں گھر پر بھی ہوتا۔ تو ہر وقت یا تسبیح کر رہا ہوتا یا تبلیغی جماعت کے متعلق سوچ رہا ہوتا۔ کہ اب میں تبلیغی جماعت کے کارکن کی حیثیت سے کیا ایسا عمل کروں۔ جس سے تبلیغی جماعت کی تعلیم ہر گھر گھر تک پونچھ جائے۔ کیسے ہر ہر گھر میں اسلامی تبلیغی جماعت کا ایک ایک کارکن ہو۔ جو ہماری طرح دین کے کام میں اپنا سرمایہ وقت صرف کرے۔
ایک فعال کارکن
میں اب تبلیغی جماعت کے ایک فعال کارکن کی حیثیت سے کام کرنا چاہتا تھا۔ اسکے لیے میں نے اپنی مسجد میں باجماعت نماز کی امامت کے بعد اعلان کرنا شروع کر دیا۔ بھائیوں دعا کے بعد مسجد میں کچھ دین کی بات ہو گی۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ بعد میں رک کر ہماری بات سن سکتے ہیں۔
درس کے آغاز سے قبل میں فضائل اعمال کی کتاب کو اُٹھا کر لے آتا۔ میرا دوست بھی میرے ساتھ ہی ہوتا۔ ہم دونوں میں مقابلہ ہوتا کہ کون فضائل اعمال کی کتاب اُٹھا لائے گا۔ کیونکہ جسکے ہاتھ میں کتاب لگ گئی وہ ہی درس دے گا۔ اس مقابلہ میں اکثر میں ہی سرخرو ہوتا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ فضائل اعمال الماری میں کہاں پڑی ہے۔
درس سے قبل میں مسجد کے ایک نمایاں مقام پر بیٹھ جاتا۔ کچھ دیر انتظار کرتا کہ جس کسی نے شامل ہونا ہے ہو جائے۔ اکثر اؤقات چند ہی افراد درس کا حصہ بن پاتے۔ لیکن کبھی کبھار لوگوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہوتی۔ درس شروع کرنے سے قبل میں اپنے دائیں یا بائیں جانب موجود سب سے زیادہ بزرگ شخص سے درس کے آغاز کرنے کی اجازت طلب کرتا۔ پھر بسم الله پڑھ کر فضائل اعمال کی کتاب کھولتا۔
میں نے یہ درس کئی ماہ تک لگاتار سنایا۔ یہاں تک کہ تبلیغی بھائی نے مجھے یہاں تک کہہ دیا۔ بھائی کسی اور کو بھی درس سنانے کا موقع دیجئے۔ لیکن میں نے اکثر اُنکی بات کو سنا اَن سنا کر دیا۔ کیونکہ میں فضائل اعمال سے نمازیوں کو درس دینے کا بہت شوقیں تھا۔
چاہے میں ہوں یا کوئی اور جو درس دے۔ فضائل اعمال کے مختلف حصوں میں سے ہم ایک صفحہ کھول لیتے۔ پھر اُس صفحہ پر موجود بات کو پڑھ کر سناتے۔ پھر اُس ہی بات کی تفصیل کو لوگوں کے سامنے مختلف حکایاتوں کی مدد سے کھینچتے۔
رائیونڈ اجتماع — دوسرا سہ روزہ
میرا اگلا سہ روزہ رائیونڈ کے اجتماع کے موقع پر لگا۔ وہاں پر میرے ساتھ جو ساتھی موجود تھے اُن کی اکثریت کو میں جانتا تھا۔ میں نے دور دراز سے آئے ہوئے علماء کے خطبات کو سنا۔ کچھ مشہور تھے اور اکثر کے نام تک میں نہیں جانتا تھا۔
جو میں نے دیکھا وہ یہ کہ جو خاطب مشہور ہو۔ اُنکے خطاب پر تبلیغی بھائی خوشی خوشی اُمڈ کر پونچھتے۔ اور جو مشہور نہ اور اگر وہ اپنے لہجے میں قرار نہیں رکھتا ہو۔ تو اکثر ساتھی خطاب کے دوران بیزار ہو کر نیچے کی طرف دیکھتے رہتے۔
اجتماع میں ہم خیموں کے نیچے۔ زمین پر اپنا بستر لگا کر سوئے۔ دعا کرتے رہتے کہ بارش نہ ہو۔ ورنہ ہر جگہ کچی مٹی کی وجہ سے کیچڑ ہی کیچڑ ہو جائے گا۔ ہم فجر کے وقت جاگتے۔ نہانے کا تو کوئی انتظام نہ تھا۔ لیکن پاخانے کے لیے ہمارے خیموں میں سے ایک طرف کچی سڑک کے پار بیت الخلاء کا خاطر خواہ انتظام موجود تھا۔
خیموں کی دوسری جانب بڑے پیمانے پر ایک بازار بھی لگ چکا تھا۔ جو میری لیے حیرانی اور دلچسپی کا باعث تھا۔ یہاں پر پاکستان بھر سے لوگ اپنی اشیاء بیچنے کے لیے لائے تھے۔ قیمتی تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اسلئے کہ شاید اکثر افراد کی حیثیت معاشرے کے متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔
جب میں بازار سے منسلک راستہ پر ہو کر بیت الخلاء کی جانب جاتا۔ تو وہاں پر کبھی کبھار چند تبلیغی بھائیوں کو صدا لگاتے سنتا۔ وہ بازار میں موجود خریداروں کو خبردار کرتے رہتے۔ تم لوگ یہاں پر دین کے کام کے لیے آئے ہو۔ وہ صدا لگاتے جاتے کہ آپ یہاں بازار میں اپنا زیادہ وقت صرف مت کریں۔
اجتماع کے آخری روز دعا تھی۔ کہیں نہ کہیں سے وہاں پر اخبار بھی آ گیا جس میں رائیونڈ کے اجتماع کے متعلق خبر تھی۔ جس میں یہ معلومات تھیں کہ اس مرتبہ کے اجتماع نے پچھلے تمام اجتماعات کے ریکارڈ کو توڑ ڈالا ہے۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا۔
شہر میں — تیسرا سہ روزہ
تیسرے سہ روزہ کہ لیے میں اپنی رہائش سے دور ایک نچلے متوسط طبقے کی مسجد میں گیا۔ ہمیں رہائش کے لیے مسجد کی پہلی منزل دستیاب ہوئی۔ ماہ رمضان چل رہا تھا۔ طاق راتوں کا سلسلہ تھا۔
میری ترجیح تھی کہ میں آدھی رات سے کچھ زائد عرصہ جاگوں۔ جماعت کے ساتھی تو سو جاتے مگر میں عبادت اور ذکر جاری رکھتا۔
پہلے سہ روزے کی طرح پانچ نکات، ذکر و فضائل کی محفل قائم کی گئی۔ اس میں کچھ نیا نہیں تھا۔ ماہ رمضان کی نسبت مجھے جب بھی جماعتی درس سے فرست ملتی۔ تو میں قرآن پاک باترجمہ پڑھنے لگ جاتا۔
ایک روز یوں ہی میں قرآن پڑھ رہا تھا کہ مجھے ایک تبلیغی بھائی نے کہا۔ آپ جماعت کے ساتھ آ جائیے۔ وہاں پر سب لوگ جمع ہیں۔ میں قرآنی آیات میں اپنا دل لگا چکا تھا۔ جواباً میں نے کہا کہ آپ کیجئےمیں قرآن پڑھنے میں مصروف ہوں۔
تبلیغی بھائی نے کہا اسے یہیں پر چھوڑ دیجئے۔ بعد میں دیکھ لیجئے گا۔ میں نے کہا کیوں نہ قرآن کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔ تبلیغی بھائی نے کہا نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ قرآن کی آیات کو باترجمہ جماعتی تعلیم میں پڑھ کر زہنوں کی پاکیزگی حاصل کی جائے۔ تبلیغی بھائی نے قرآن کو رد کروا کر مجھے اپنے ساتھ آنے پر اسراراً مجبور کر دیا۔ مجھے بُرا تو بہت لگا۔ لیکن میں ایک اَدنا کارکن کی حیثیت سے کر بھی کیا سکتا تھا۔ جب جماعت کا حصہ ہوں۔ تو پھر وہ ہی کرنا ہے جو تبلیغی جماعت کا قائدہ ہے۔ اگر قرآن جماعت کی تعلیم میں کوئی جگہ نہیں رکھتا۔ تو یہ شاید جماعت کا کام ہی نہیں۔
میں نے قرآن کو چوم کر مسجد کے الماری میں واپس رکھ دیا۔ دل میں تو شدت سے قرآن کی محبت ایک زندہ شہ کی طرح میرے اندر تڑپ رہی تھی۔ لیکن نا چاہتے ہوئے بھی میں تبلیغی بھائی کے ساتھ ہو لیا۔
تبلیغی بھائی کے ساتھ جماعت کے درس تک گیا۔ تو کچھ ساتھی میرے آخر میں آنے سے نالاں دکھائی دیے۔ پھر وہاں پر جماعت میں پانچ نکات اور حکایات پر مبنی کچھ قصے سنائے گئے۔ فضائل اعمال کی کتاب سے فضائل کی اہمیت کو اُبھارا گیا۔ مختلف نیکیوں اور اعمال کی فضیلت سے ہمیں روشناس کروایا گیا۔ اور بتایا کس عمل کا کتنا ثواب ہے۔ جنت میں کیا ملے گا اور ہمارے دراجات کسی نویت کے ہوں گے۔
دوران محفل میرے دل میں جو قرآن کی تڑپ تھی۔ وہ ابھی تک زہن میں ایک روشن خیال کی طرح زندہ تھی۔ محفل میں وقفہ کے دوران میں نے عرض کیا۔ کیوں نہ ہم آج قرآن کو بھی اپنی محفل میں حصہ دیں۔ کیوں نہ ہم قرآن کی تلاوت اور اُسکی آیات کے ترجمہ سے اپنے زہنوں کو تازہ دم کریں۔ خاصکر رمضان میں تو ایسا جماعتی درس باعث رحمت رب العالمین ہو گا۔
میری اس بات پر وہاں پر ایسی خاموشی ہوئی کہ کسی نے میری طرف دیکھنا بھی گنوارا نہ کیا۔ سب دائیرے میں بیٹھ کر اپنا منہ کو یوں گول کر بیٹھے کہ جیسا اُنہوں نے میری بات کو سنا اَن سنا کر دیا۔
تبلیغ جماعت کے امیر صاحب نے مجھ پر سوالی نظروں سے اشارہ کر کے کہا۔ وہ پھر دیکھ لیں گے۔ لیکن وہ پھر کبھی نہ آئی۔ جماعتی درس میں قرآن کی تعلیم کے متعلق بات تک نہ ہوئی۔ البتہ قرآن کے فضائل سناتے ہوئے ہمیں قرآن کی تعلیم سے لاتعلق رکھا گیا۔ اِس سے زائد کچھ نہ ہوا۔ عجب معاملہ تو یہ بھی تھا کہ کسی تبلیغی بھائی نے میرے ساتھ بعد میں قرآن کے متعلق گفتگو تک نہ کی۔ سب ساتھیوں نے قرآن کو یوں اپنی زبان اور آنکھوں سے لاوارث کر ڈالا۔ مجھے لگا کہ شاید جیسے انکی قرآن سے کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ کہ فضائل تو بڑھ چڑھ کر بیان کرتے ہیں۔ مگر قرآن کی تعلیم سے یوں بےشرمی سے کتراتے ہیں کہ اُس کی تعلیم کے متعلق بات تک سننا کرنا گنوارا نہیں کرتے۔
قصہ مختصر
زندگی کے ایام یوں ہی جماعت کے ساتھ گزرتے رہے۔ جس تبلیغی بھائی کی وجہ سے میں اور میرا دوست سہ روزے کے لیے نکلے تھے۔ اُس تبلیغی بھائی کی طرح اب ہم تبلیغی جماعت کا کام کرنے لگے۔ علاقہ میں گشت کرنے ساتھیوں کے ہمراہ جاتے۔ بعد نماز عصر ہم اکثر مسجد کی سمت (دائیں یا بائیں) کو چن کر غیرفعال ساتھوں سے ملنے اُن کے گھر جاتے۔ اُنکو تبلیغ کے ساتھ دوبارہ جڑے رہنے کی دعوت دیتے۔
اپنی زندگی کا بہترین وقت میں نے تبلیغی جماعت میں صرف کیا۔ میری زندگی میں تبلیغی جماعت کا ایک خاص مقام تھا۔ جب سے میں تبلیغی جماعت میں شامل ہوا۔ تب سے میں نے اپنے مقامی تبلیغی ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک رواں رکھا۔ کسی کے ساتھ میرا رویہ برا نہیں تھا۔
لیکن میرے زہن میں میرا تیسرا سہ روزہ۔ جسے میں میں نے قرآن کے درس کی بات کی۔ اُس دوران میرے تبلیغی بھائیوں نے قرآنی درس پر جو خاموشی کا انداز اختیار کیا اُس سے میرے دل کو بہت ٹھیس پونچھی۔ اس بات کا احساس مجھے وقتاً فوقتاً اپنے خیالات میں ہوتا رہتا تھا۔ میں اُس بات کو کبھی بھول نہ پایا۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جس جماعت کے کارکن قرآن کو اسطرح بےدردی سے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ وہ اُس کے فضائل پر اِتنے کھل کر بات کس بنیاد پر کرتے ہیں۔ اگر ہم جماعتی حیثیت میں قرآن کو رد کر چھوڑتے ہیں۔ تو ہمیں یہ بات کیسے گنوارا ہوتی ہے کہ ہم کہیں کہ ہم دین اسلام کے کام کے لیے نکالے گئے ہیں۔
پلٹ کر دیکھنا
ایک لمبے عرصہ جماعت کے ساتھ گزارنے کے بعد۔ قدرتی طور پر میرے زہن میں جماعت کے متعلق کچھ سوالات نے جنم لیا۔ خاصکر یہ کہ تبلیغی جماعت قرآن کو کس حیثیت میں قبول کرتی ہے۔ قرآن ہمارے جماعتی درس کا حصہ کیوں نہیں۔ میں سمجھتا تھا کہ کوئی بھی اسلامی تبلیغ۔ قرآن کی تعلیم کے بغیر اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کر سکتی۔ چاہے وہ تعلیم ایک رکوع کی تلاوت باترجمہ ہی کیوں نہ ہو۔
سوچا کیوں نہ اپنے جماعت کے پرانے ساتھیوں سے رہنمائی لوں۔ امیر صاحب اور کچھ دیگر پرانے ساتھی تو لمبے لمبے عرصے بیرون ملک تک اپنی زندگیاں تبلیغ کو دے آئے تھے۔ اکثر کا اصل گھر تو تبلیغ و مسجد کے بین زندگی ہے۔ فقط انسانوں کو اللہ کی راہ میں نکالنے اور نکلنے کی تلقین کرنے والے۔ ہم بھی شاید اُن ہی کی محنت کا صلہ ہیں۔
واجد بھیا ہمارے ایک قریبی تبلیغی ساتھی تھے۔ اُن کی ڈارھی ابھی تھوڑی سی سفید ہوئی ہو گی۔ لیکن واجد بھیا کا جماعت کے ساتھ تعلق ایک عرصے کا نام ہے۔ بھیا پہلے ہی دعوت کے لیے دوردراز گاؤں اور شہر جا چکے تھے۔ میرا تو چلہ بھی اُنکے تو کئی چلے، سہ روزے، اور سال کے بعد عمل میں آیا۔
مجھے خیال آیا کہ میں ان کے سامنے اپنی بات پیش کروں۔ اپنے سوالات ان کے سامنے رکھوں۔ تاکہ میری بہترین اصلاح ممکن ہو سکے۔ کیونکہ بزرگ عمر کا کوئی بھی تبلیغی کارکن شاید اُتنے صبر و اطمینان سے میری بات نہ سنے سکے۔ اس اَدنا کارکن کی اُن بزرگان دین کے عشروں پر محیط تبلیغ کے سامنے کیا حیثیت۔ میرے سوالات نے اگر بحث کی شکل اختیار کر لی۔ یہ ایسا نہ ہو کہ مجھ نادان کو یہ بےادب مخاطب کر ڈالیں۔
ایک عرصے تک میں سوچتا رہا۔ کس حکمت عملی پر واجد بھیا سے گفتگو کا آغاز کروں۔ اس کشموکش میں کئی ماہ بیت گئے۔ تذبذب نے میری سوچ کو ساقط کر ڈالا۔ متوقع ندامت کا احساس۔ میں خود کو ناچیز سمجھتا تھا۔ اسلئے سوال تو دور واجد بھیا کو سلام تک ٹھیک سے کرنے کا سوچتا۔ تو رک جاتا۔
لیکن ایک روز، بعد نماز عصر۔ خدا کا کچھ ایسا کرم ہوا کہ اُس خدا نے مجھے ہمت دی اور میں نے بلااختیار واجد بھیا سے اسلام و علیکم کہہ ڈالا۔ بھیا نے مسکرا کر وعلیکم اسلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا۔ دل سے ایک دم سوال اُمڈ آیا۔ واجد بھائی اگر آپ مصروف نہیں تو کیا آپ اپنا کچھ وقت مجھے عنایت کر سکتے ہیں۔
جی کہئے
یہ سن کر میری جان میں جان آ گئی۔
میں نے کہا، بھیا جماعت سے منسلک ہونے کے بعد دین سے متعلق کچھ باتیں تھیں جو میں آپ سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ دین کی بات کا سن کر بھیا کچھ رکے۔ واجد بھیا نے اشارہ کیا اور ہم بات کرنے کے لیے ایک طرف چل دیے۔
نشست اؤل
مسجد میں نمازیوں سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گئے۔ تاکہ ہماری گفتگو سے کوئی نمازی پریشان نہ ہو۔ واجد بھیا نہ مسکرا کر کہا۔ آپ اب بات کیجئے۔
میں نے عرض کیا۔ بھیا چلہ میں لگا چکا۔ سہ روزے کے کئے عمل سے گزر چکا۔ سیکھنے کو بھی بہت کچھ ملا۔ یہ میں کہتا ہوں۔ اتنا عرصہ لاگنے کے باوجود میرا دل دین کو سیکھنے اور سیکھانے کے لیے تڑپتا ہے۔ لیکن مجھے اپنا آپ اندر سے کچھ خالی خالی سا محسوس ہوتا ہے۔ کیا کہیں مجھ میں کوئی کمی ہے۔ کیا میری سوچ میں کوئی کوتاہی ہے یا میں تبلیغی جماعت کے مقصد سے ابھی تک لاتعلق ہوں۔
واجد بھیا کچھ دیر خاموش رہے، پھر کہا۔
میں آپکی بات کی قدر کرتا ہوں۔ یہ سیکھنے سیکھانے کا کام ہے۔ میں نے آپکی بات سنی اور سمجھی۔ لیکن مجھے آپکی بات میں کہیں کوئی سوال نظر نہیں آیا۔ آپکی بات آپکے دل کا حال تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی سوال نہیں۔ اگر آپ کسی خاص نقطے پر بات کریں تو شاید میں آپکی رہنمائی کر سکوں۔
کچھ دیر میں سوچ میں پڑا رہا کہ اپنی بات کیسے بیان کروں۔ پھر دل ہلکا کرنے کے لیے بات کو صاف صاف بیان کرنے کی ٹھانی۔
سوال: بھیا ہماری کتاب فضائل اعمال۔ اس میں جو واقعات، قصے، حقائتیں درج ہیں۔ انکا مقصد کیا ہے۔
جواب: انکا مقصد آپکے دل میں فضائل کا شوق پیدا کرنا ہے۔ جیسا کہ فضائل اعمال کے اندر فضائل قرآن کا باب درج ہے۔ اِسکو پڑھ کر آپکے دل میں قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔
سوال: بھیا یہ قرآن پڑھنے کا شوق کس کام کا اگر ہم جماعتی درس سے خالص قرآن کی تعلیم ہی کو لاتعلق رکھیں۔
جواب: نہیں، ایسا تو نہیں۔ ہم آپکو سورتیں یاد کرواتے ہیں۔
سوال: بھیا وہ تو محض رٹے کا عمل ہے۔ دس مرتبہ ایک ہی سورة دہراؤ بغیر عقل استعمال کئے۔ میرا نقطہ فہم سے متعلق ہے۔ وہ فہم جو باترجمہ درس قرآن سے آپکے زہن میں اُترتا ہے۔
جواب: آپکو قرآن باترجمہ پڑھنے سے روکا کس نے ہے۔
سوال: بات بھیا روکنے کی نہیں۔ جب ہم فضائل قرآن پر اتنا زور دیتے ہیں۔ تو کیا ہم باترجمہ قرآن کی تعلیم کو اپنے درس کا حصہ نہیں بنا سکتے۔
جواب: جماعت کا یہ مقصد نہیں۔
سوال: مقصد نہیں، قرآن کی تلقین مگر اُسکو باجماعت باترجمہ پڑھنا سمجھنا جماعت کا مقصد نہیں۔ تو فضائل قرآن کو سننا سنانا کس کام کا۔
جواب: مقصد آپ میں قرآن کے فہم کا شوق بیدار کرنا ہے۔ جماعت کا کام آپکو راستہ دِکھانا ہے۔ راستے پر چلنا آپکا اپنا کام ہے۔
سوال: یہ کیسی جماعت۔ جو راستہ تو دکھائے مگر خود اُس راستے سے عملی طور پر نااشناء رہے۔
جواب: قرآن اہم ہے۔ اُسکی تعلیم بھی اہم۔ آپ کسی عالم کے پاس جائیے۔ ورنہ اگر آپ خود سے قرآن کو پڑھیں یا سمجھیں گے تو بھٹک سکتے ہیں۔
سوال: بھٹک سکتا ہوں۔ لیکن ہماری اپنی جماعتی کتب مثلاً فضائل اعمال وغیرہ۔ تو پھر میں اِنکو پڑھ کر بھی بھٹک سکتا ہوں۔ یوں تو مجھے بچوں کی طرح اپنی اُنگلی پکڑوا کر ہر عمل سے گزروانا پڑے گا۔ یوں تو میں فضائل اعمال کے بتائے ہر عمل سے بھٹک سکتا ہوں۔ یہ کیسی جماعتی رہنمائی ہے۔ جو ہر کارکن کو ہی بنیادی طور پر بھٹکا ہوا سمجھے۔
جواب: یہ سب بحث ہے۔
سوال: تو کیا قرآن کو باترجمہ جماعتی درس میں شامل کرنا بحث ہے۔ یہ کیسی ٹھیکے داری ہے کہ ہم جس قرآن کا شوق سننے والوں کے دلوں میں اُتار رہے ہیں۔ وہ کام ہم خود اپنی جماعت میں نہیں کرتے۔ تو ہم خود کو کیسے سچا کہیں۔ ہم اپنی کُتب کو درس میں قرآن پر فوقیت دینے پر کیوں آمادہ ہیں۔ قرآن ہی کو اپنے درس کی بنیاد کیوں نہیں بناتے۔
جواب: دیکھئے بھائی۔ آپ بات کو اُلجھا رہے ہیں۔ ہمارا کام لوگوں کو ہدایت کی طرف لانا ہے۔ ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔
سوال: تو کیا بھیا۔ فہم قرآن کے بغیر لوگوں کو دعوت و ہدایت کا عمل مکمل ہو سکتا ہے۔
جواب: بھائی فضائل اعمال میں قرآنی فضائل میں اس ہی پر تو بات ہوئی ہے۔
سوال: لیکن بھیا، فضائل قرآن کا باب قرآن تو نہیں۔ ہدایت تو قرآن اور اُسکے فہم ہی سے ملنی ہے۔ اگر اس فہم پر جماعتی حیثیت میں کوئی صریح کوشش ہی نہ ہو۔ تو کیا ہمیں فہم اپنے ہاتھوں کی لکھی کتب سے آنا ہے۔
جواب: فہم تو خدا نے دینا ہے۔ ہمارا کام ہے صرف دعوت۔
سوال: تو بھیا خدا ہی نے تو قرآن کو فہم کا ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن موجود، ترجمہ موجود۔ خدا کی ذات نے قرآن سے ہدایت اور فہم کو پیش پیش فرما دیا۔ تو اب اگر ہم اس فہم کی طرف نہ آئیں۔ تو کیا ہمارا درس محض ڈھونگ نہیں۔
جواب: اچھا، تو ترجمہ کس کا پڑھو گے۔ گمراہ ہو سکتے ہو۔
سوال: ہم اپنے ہی فرقے کا ترجمہ اُٹھا لیتے ہیں۔ مقصد تو قرآن سے ہدایت اور فہم حاصل کرنا ہے۔
جواب: تم گمراہ ہو سکتے ہو۔ کسی عالم کے ساتھ مل کر یہ سب کرو۔
سوال: تو کیا میں اپنے علماء کے لکھے تراجم و تفسیر پڑھ کر بھی گمراہ ہو سکتا ہوں۔
جواب: ہاں ہو سکتے ہو۔
سوال: تو فضائل اعمال سے جن اعمال کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ تو کیا میں اُن سے بھی گمراہ ہو سکتا ہوں۔
جواب: نہیں۔ فضائل اعمال عام فہم ہے۔ اس سے اُس طرح کی گمراہی کا خدشہ نہیں۔
سوال: ہمارے اپنے علماء کی لکھی تفاسیر و تراجم کیا عام فہم نہیں۔ یا اُس سے بھی گمراہی کا خدشہ ہے۔
جواب: یہ اچھا سوال ہے۔ یوں تو میں نے پہلے کبھی سوچا ہی نہیں۔ فضائل اعمال اگر عام فہم ہے۔ تو ہمارے اپنے علماء کے لکھے تراجم اور تفسیر بھی تو عام فہم ہیں۔ ہم یہ کیسے کہتے ہیں کہ اُنکے ہاتھوں کی لکھی فضائل اعمال سے گمراہی کا خدشہ نہیں۔ لیکن اُن ہی کے ہاتھوں اور زہنوں کی کاوش ترجمہ قرآن و تفسیر سے ہم گمراہ ہو سکتے ہیں۔ یوں تو ہم فضائل اعمال اور اپنی کتب کو قرآن پر فوقیت دینے پر مذمر ہیں۔
وقت گزرنے تک کی خبر نہ ہوئی۔ نماز مغرب کی اذان ہونے کو تھی۔ اسلئے ہم نے اپنی نشت کو وہیں پر روکا۔ دل تو بہت تھا کہ واجد بھیا سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں۔ لیکن وقت تو پھر وقت ہے۔ زہنی طور پر بھی ہم کچھ تھک سے گئے تھے۔
فل وقت میں نے واجد بھیا کا شکریہ ادا کیا۔ جن سے گفتگو کر کے میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جدائی سے قبل دوبارہ ملنے کی خواہش کی۔ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد مسجد سے گھر آ گیا۔
یوں ہی کئی روز بیت گئے۔ واجد بھیا مسجد سے کچھ عرصہ کے لیے غائب ہو گئے۔ میں نے سوچا شاید وہ کہیں کسی تبلیغی جماعت کے ساتھ چلہ یا سہ روزہ لگانے گئے ہوں گے۔
کچھ ہفتوں کا وقت تو یوں ہی گزر گیا۔ ایک دن یوں ہی حسب معمول میں مسجد میں نماز ادا کرنے آیا۔ تو وہاں پر واجد بھیا کو پایا۔ بعد از اُن سے سلام دعا ہوئی۔ اب واجد بھیا نے مجھ سے کچھ وقت کی درخواست مانگی۔ جسے میں نے باخوشی قبول کر لیا۔
یوں ایک عرصہ بعد ہماری گفتگو کا ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ جڑ گیا۔ اب ہم ایک دوسرے کے زہنی مقامات سے اشناء تھے۔ اسلئے اب ہمیں کچھ باتیں بغیر تمہید کے آزادی کے سے کرنے کا موقع ملا۔
نشست دوم
واجد: تبلیغی جماعت کا مقصد لوگوں کو نماز کی طرف رغبت دینا ہے۔ کیونکہ لوگ تو نماز ہی نہیں پڑھتے۔
جواب: بھیا آپکو کس نے کہا۔ میں تو تبلیغ سے پہلے بھی نماز باجماعت ادا کرتا تھا۔ ہماری جماعت رب یا خدا تو نہیں کہ لوگوں کو کہے کہ تم لوگ نماز ادا نہیں کرتے۔ سب کرتے ہیں۔ شاید جماعت نے محض یہ افواء چھوڑ رکھی ہے۔
واجد: چلئے اسکو یوں کہئے کہ پڑھتے تو ہیں مگر درست ادا نہیں کرتے۔
جواب: یہ کہنا کہ درست ادا نہیں کرتے۔ اس سے جو لوگ پہلے سے مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں وہ بھی آنے سے کترائیں گے۔ پہلے ہی پاکستان میں لوگ ایک دوسرے فریق کے پیچھے نماز ادا نہیں کرتے۔ تبلیغی جماعت کا ایسا کہنا خود کو ایک انتہائی درجہ کا فریق بنانا ہے۔
واجد: جماعت "امر بالمعروف والنهي عن المنكر” میں سے صرف "امر بالمعروف” پر کارفرماء ہے۔ کیونکہ "النهي عن المنكر” کے لیے ادارے موجود ہیں۔
جواب: قرآن کی اُس آیت میں تو کسی ادارہ کا ذکر نہیں۔ جس بات سے اپنے پر تنقید آئے، اُسکی تلقین نہ کرنا منافقت ہے۔ کیونکہ "النهي عن المنكر” کا تعلق سماج کی عملی بہتری سے متعلق ہے۔
اگر جماعت کو خوف ہے کہ سماجی طاغوت اُن پر اُنگلیاں اُٹھائیں گے۔ پابندی اور تنقید کا ڈر ہے۔ اسلئے وہ "النهي عن المنكر” سے دور رہتے ہیں۔ تو پھر آیت قرآن کی ایسی بھونڈی تفسیر تو شیطان بھی نہ کرے۔ جس ادارہ نما تفسیری حد کو خدا نے اپنی آیت میں نہیں اُتارا۔ اُسکی ہم نے ایسی تفسیر کس بنیاد پر کر ڈالی۔ کیا ہماری جماعت نے تفسیر کے نام پر اصول بدعت بد کو اپنا رکھا ہے۔ کیونکہ خدا تو قرآن میں کہتا ہے۔
… بےشک اللہ کسی قوم کی حالات نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلیں …
سورة الرعد ۱۳ آیت ۱۱
واجد: روزے داروں میں گراوٹ آ چکی ہے۔
جواب: اگر نماز کی طرح یہ بات بھی ہمارے زہن کی افواء ہے۔ تو باخدا ہم خدا نہیں کہ انسانوں کا حساب کتاب رکھیں۔ کیسے وہ دین میں ہم سے کمی ہیں اور ہم بہتر۔ ایسا کہنا سوچنا ہی حقیقت میں خود کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔
واجد: مسلمانوں کو زکوة کا ادراک نہیں۔
جواب: جب جماعت کہتی ہے کہ "النهي عن المنكر” اُسکا کام نہیں۔ تو زکوة کی بات کرنا ہی ڈھونگ ہے۔ وہ علیدہ بات ہے کہ ہماری جماعت مسجد میں داخل ہوتے وقت ایک محدود رقم امیر کے ہاتھ پر امانت کے طور پر رکھتی ہے۔ پھر کبھی کسی کو اُسکا احتساب نہیں ملتا۔ کیا ساری خرچ ہوئی یا کسی کی اُس سے جیب گرم ہوئی۔ کیا جس مسجد میں ہم جاتے ہیں وہاں کا مولوی ہمیں بغیر کسی لالچ کے جگہ دیتا ہے۔ پیسہ تو بہرحال انسانی "ہاں” کا بہت بڑا محرک ہے۔
واجد: جماعتی عقائد۔ میں قرآن کے فضائل بیان کرنا لیکن خود اُسکے درس سے جماعت کو خالی رکھنا۔ اُلٹا کہنا کہ تم اِسے خود اکیلے بھی مت پڑھو۔ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ "النهي عن المنكر” سے اپنی ادارہ نما تشریح ایجاد کرنا۔ یہ سب جواب صاف صریح انداز میں جماعت کے اندر اتنا عرصہ گزار کر تو میں نے بھی نہیں سوچیں۔ تو پھر آپکی نظر میں گمراہ کون ہے۔
جواب: یہ بات سوچنے کے قابل ہے۔
بصیرت
اب ہم ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے لگے تھے۔ ہم اب بھی تبلیغی جماعت کے سرگرم کارکن تھے۔ واجد بھیا کی تو کیا ہی بات۔ اُن سا کارکن بھی کیا کارکن۔ جس نے اپنی زندگی کو ہی تبلیغ میں ایسا پرو دیا کہ اُنکی اپنی شخصیت تو تبلیغی کام میں کہیں ثانوی ہو رہ گئی۔
تبلیغی جماعت کے عمل یا سوچ سے اختلاف کرنا تو بےشک ہمارا اخلاقی حق تھا۔ اسکا ہرگز مطلب مقصد نہیں کہ ہم جماعت ہی کو خیرآباد کہہ دیں۔ ہم تو ایسا ہرگز ہرگز سوچنا بھی گنوارا نہیں کر سکتے تھے۔
دین کیسے ہماری زندگی میں آئے یہ تو بعد کی بات ہے۔ اؤل قدم تو دین کے فہم سے روشنائی ہے۔ اور دین کا فہم بغیر قرآن کی سمجھ کے حاصل کرنا ایسا ہی ہے کہ ہم کوئی گمنام سا راستہ اپنا لیں۔ پھر کہیں کہ ہم کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔ بھلا اندھے بھی کیا کسی کو روشنائی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ جو خود اندھے پن کا شکار ہوں وہ دوسروں کو کیا روشنی کی طرف لا سکتے ہیں۔ وہ تو خود بھٹکے، روشنی کے متلاشی، اپنی نالائقی سے مسکین محتاج حیثیت رکھتے ہیں۔
جیسے جیسے ہم دین حق السلام اور قرآن کے مقام سے واقف ہو رہے تھے۔ تو ہمارے دل نے خود اپنی دھڑکن سے بولا۔
القرآن القرآن القرآن
ہم نے سوچا۔ کیونکہ اپنے بزرگوں کے اپنے ہاتھوں کی لکھی کتب۔ اُنکے اپنے زہن سے صادر واقعات پر مبنی حقائیات کو عام فہم کہہ کر پھیلانے کی بجائے۔ القرآن کو بنیاد بنایا جائے۔ کیونکہ قرآن کسی روای یا بابا جی کی محتاج تو نہیں۔ قرآن تو وہ سچی خبر ہے جسے اللہ نے مقام دیا اور رسول اللہ نے اپنے پیارے مبارک لہن سے انسانیت تک پونچھایا۔
اور کون کیسا ہی برا ہی ہو سکتا ہے جو ہماری ایسی اچھی بات میں کیڑے نکالے۔ ایسا شخص تو شیطان کا چیلہ کہلانے کے لائق ہو گا۔ کیونکہ جب لہن سے قرآن ادا ہو اور اُسکا ترجمہ کانوں سے دلوں کی راہوں تک پونچھے۔ تو وہاں پر سب سے بڑا بھگوڑا پن کا شکار تو خود شیطان ہوتا ہے۔ شیطان تو ہمارے سامنے نہیں۔ لیکن اب ہمارے سامنے اُسکا کیا کوئی چیلا انسانی روپ میں آئے گا۔ کیا شیطان کی جماعت کا کوئی ملعون لعنتی شخص شکل دکھائے گا۔ جو ہمیں اپنی شیطانی منطق سے روکے ٹوکے۔ بہرحال اب ہم نے جب ٹھان لیا۔ تو اللہ کا نام لیا۔ اور قرآن کو تبلیغی جماعت کے درس کا حصہ بنانے کا سوچ لیا۔
بسم الله
ایک روز بعد نماز عصر۔ واجد بھیا اور میں جو اپنے بزرگوں کی لکھی فضائل اعمال ساتھیوں کے لیے بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔ ہم نے اب اپنے مسلک کے عالم کا قرآنی ترجمہ کھول کر درس قرآن کا آغاز کر دیا۔ واجد بھیا پہلے قرآن کی آیات پڑھتے۔ پھر رفتہ رفتہ صرف اُن آیات کا ترجمہ پڑھتے جاتے۔
درس کے بعد احساس ہوتا۔ جیسا ہمارا وجود زہنی تناؤ سے نکل کر پرسکون سا ہو گیا ہے۔ کوئی نور خدا ہے یا یہ کتاب خدا القرآن کا منفرد سبق کہ ہم خود کو مکمل مکمل محسوس کرنے لگے۔ ہمیں تو یوں لگتا تھا کہ جیسے ہمارا زہن کھلتا چلا جا رہا ہے۔ خدا کی رحمت نے ہمیں آ لیا ہے۔ گمراہ ہونے کی بجائے ہمیں روحانی سکون کچھ ایسا نصیب ہوتا کہ ہم بلااختیار کہہ اُٹھتے۔ الحمداللہ۔
بےشک رب تو پھر رب ہے کوئی باباجی تو نہیں۔ جنکی زہنوں سے نکلی ہوئی کہاوتیں چاہے کیسے ہی شوقین مزاج کیفیت پر مائل کیوں نہ کریں۔ قرآن تو نہیں! اور اُن میں اُن بابا جی کے اپنے زہن نے اگر کہیں کوئی شیطانی شامل کر رکھی ہے۔ تو ہم کہاں پر اُنہیں علم کہیں اور کہاں پر شیطان۔ انسان تو پھر انسان ہے۔ اور شیطان شیطان۔ اور انسان جب رب کے نام پر شیطانی کرتا ہے تو اُس عالم کی جمامت اکثر اُسکی شیطانی کو بھی اُسکے علم کا مقام سمجھتی ہے۔
رفتہ رفتہ ہمارا درس نماز کے اکثر ساتھیوں کو اتنا پسند آیا کہ ہم ابھی قرآن کھولنے ہی لگتے کہ جیسا اُنکے چہروں پر مسکراہٹ اُمڈ آتی۔ یہ مسکراہٹ ہماری نہیں، درس قرآن کی تھی۔ ہم تو محض اپنے مسلک کے عالم کا ترجمے والا قرآن کھول کر صرف آیات کا ترجمہ ہی دہراتے تھے۔ اس قرآن کا انسان کے چہروں پر کیسا کمال اثر۔
درس کے بعد ہمیں کچھ ساتھیوں نے یوں کہا کہ وہ ہمارے درس سے زہنی سکون حاصل کرتے ہیں۔ آپ کا درس تو ہمیں دلبرداشتگی سے سکون تک لے جاتا ہے۔ میں پہچان گیا تھا کہ درس قرآن ہی اصل تبلیغ ہے۔ ورنہ انسانوں کے پھولوں کی طرح چہروں کاکھلنا۔ پہلے تو یہ کسی درس سے ممکن نہ ہوا۔
واجد بھیا نے سننے والوں سے پوچھا۔ آپ حضرات تو نماز کئی عرصے سے پڑھ رہے ہیں۔ ہمارا درس تو پہلے بھی ہوتا تھا۔ لیکن اب آپ کیوں ازخود شوق سے بن بلائے ہی درس میں آ جاتے ہیں۔ سب کا قریب ایک ہی جواب تھا۔ پہلے آپ جس کتاب سے پڑھتے تھے اُس پر ہمارا کوئی دین ایمان نہیں۔ لیکن جس سے اب آپ درس دے رہے ہیں اس ہی نے تو محمد عربی کو رسول اللہ بنایا۔
واجد بھیا نے تو یہ بھی کہا۔ لیکن فضائل اعمال بھی تو عام فہم ہے۔ ایک حضرت نے بہت کرارا جواب دیا۔ کیا آپ نے کبھی کسی پاگل سے سنا ہے کہ وہ خود کو کہے کہ وہ پاگل ہے۔ نہیں۔ تو پھر ہم اتنے بیوقوف تو نہیں کہ کسی انسانوں کے ہاتھوں کی لکھی کتاب کو عام فہم کا درجہ دے کر کہیں کہ ہمیں گمراہ نہیں کرتی جبکہ قرآن خود پڑھ کر ہم گمراہ ہو سکتے ہیں۔
ایک حضرت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ ہمیں بتاؤ فضائل اعمال لکھتے وقت کیا کسی مقام پر ان باباجی پر شیطان کا غلبہ ہوا ہو۔ اور اِنہوں نے اپنی طرف سے الفاظ میں کچھ ایسی ہیراپھیری کی ہو۔ جو دیکھنے میں تو نوری نظر آئے۔ لیکن حقائیت اور شوق دین کے نام پر اؤل درجے کی شیطانی ہو۔
ہمیں روک دیا گیا
تو (اے نبیؐ) آپ اِس الحدیث (القرآن) کی تکذیب کرنے والوں کے معاملے کو مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ ہم ان کو رفتہ رفتہ وہاں سے کھینچیں گے جہاں سے اِنکو خبر بھی نہیں ہو گی۔
سورة القلم ۶۸ آیت ۴۴ ت ۴۵
میں صرف اِنکو مہلت دیتا ہوں۔ بےشک میری تدبیر مضبوط ہے۔
اچھا وقت ہمیشہ تو نہیں رہتا۔ درس قرآن کی تعلیم کرتے کرتے ہمیں قریب ایک ماہ بیت چکا تھا۔ ایک روز نماز کے بعد مسجد کے امیر نے ہمیں اپنے پاس کچھ بات کرنے کے لیے بلایا۔
امیر: اسلام و علیکم۔
جواب: وعلیکم اسلام امیر صاحب (امیر — مسجد میں تبلیغی جماعت کا سردار)
امیر: یہ جو آئے روز آپ درس تبلیغ کے نام پر قرآن کھول کر تعلیم کرنے بیٹھ جاتے ہو۔ کیا یہ آپکو کسی نے ایسا کرنے کو کہا۔ کیا آپ نے اس کے لیے کسی سے اجازت طلب کی۔
جواب: جی! ہم کیا کافر ہیں جو تعلیم قرآن کے لیے آپ سے بھیک مانگیں۔ ہمیں آپکی اجازت کیوں چاہیے۔ کیا آپ اللہ کے اس گھر کے مالک ہیں۔
امیر: نہیں۔ پر یہ سب کچھ یہاں پر نہیں چلے گا۔
جواب: امیر صاحب مسئلہ کیا ہے۔ آپ کو ہوا کیا ہے۔
امیر: جماعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
جواب: پھر فضائل اعمال میں فضائل قرآن نامی باب کی گنجائش کہاں سے آ گئی۔ اب جب ہم وہ عملی طور پر کر رہے ہیں۔ جس عمل کا ذکر بڑے شوق سے جماعت کے چلوں سہ روزوں میں ہوتا ہے۔ اب آپ کہتے ہو۔ یہ سب یہاں پر نہیں چلے گا۔
امیر: ہاں، نہیں چلے گا۔ یہ ہماری جماعت کا طریقہ نہیں۔
جواب: کونسا طریقہ نہیں۔ یہ کہاں لکھا ہے۔
امیر: ہمارا کام ہدایت کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ ہدایت پر عمل ذاتی حیثیت میں کیجئے۔
جواب: فرعون کی بھی یہ ہی روش تھی۔ وہ بھی بڑا اصول پسند تھا۔ لیکن جب اُسے اُس ہی کے اصول پر چلنے کی یاددہانی کروائی جاتی۔ تو فوراً اُس سے مکر جاتا۔ خدا کے گھر میں، خدا کی نازل کردہ کتاب کی تعلیم کر رہے ہیں۔
(وہاں پر ایک طرف مسجد کے مولوی صاحب بھی موجود تھے)
امیر: مولوی صاحب۔ انکو باور کرواؤ کہ آج کے بعد مسجد میں آنا ہے تو اپنا درس بند کرو۔
مولوی: آپ امیر صاحب کی بات پر غور کیجئے۔ وہ بزرگ ہیں۔ اُنکا تبلیغی جماعت میں لگایا ہوا وقت تو آپکی عمروں کے برابر ہیں۔
جواب: مولوی صاحب آپ کیسی شیطان نما بات کر رہے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں یہ خدا کا گھر ہے اور ہمارے ہاتھوں میں خدا کی کتاب۔ القرآن! جسکے درس پر اب آپ اس گھر کے رکھوالے ہو کر۔ قرآنی درس کے مقابلہ پر کھڑے ہونے کی جسارت کر رہے ہیں۔
مولوی: اس سے انتشار پھیل سکتا ہے۔
جواب: کیسا انتشار۔
مولوی: آپ فرقے بازی کو بھڑوتری دے رہے ہیں۔
جواب: کیسی اور کونسی فرقے بازی۔ ہم صرف آیات قرآن اور اُنکا ترجمہ سناتے ہیں۔ یہ ہی ہماری تعلیم کا مکمل حاصل ہے۔ اپنی طرف سے تو کوئی الفاظ تک ادا نہیں کرتے۔ اور ترجمہ بھی اپنے ہی مسلک کے عالم کا استعمال کر رہے ہیں۔ تو آپ ہم میں فرق کیسا۔
مولوی: دیکھئے امیر صاحب کی بات پر تھوڑا غور کیجئے۔
جواب: امیر صاحب اور آپ صاحب ہمارے قرآنی درس کے پیچھے کیوں پڑے ہیں۔ آپ تو ایسے بات کر رہے ہیں جیسے کہ خدا کی جگہ آپ لوگ مسجد کے مالک ہوں۔
مولوی: مالک ہوں یا نہیں۔ یہ سب کام چندے اور دیگر لوازامت سے چلتا ہے۔ اور میں اب تمہیں یہاں پر قرآنی درس کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا۔
جواب: تو پھر ہم یہ درس کہاں پر کریں۔
مولوی: میری طرف سے باہر سڑک پر بیٹھ جاؤ۔
جواب: مسلمان نماز ادا کرنے سڑک پر نہیں آتے۔ مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ تو درس کا بھی درست مقام یہ ہی ہے۔
مولوی: تمہیں بہت چھوٹ مل چکی ہے۔
جواب: تبلیغی جماعت کا درس بھی تو یہیں کئی سالوں سے جاری ہے۔ تب تو آپ میں سے کسی کو اعتراض نہیں ہوا۔ جبکہ اُس درس کی تعلیم دینے والے بھی ہم ہی تھے۔
مولوی: یہ لاحاصل بحث اب تم لوگوں سے مذید نہیں کی جا سکتی۔
امیر: تم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو۔ یوں ہی قرآن پڑھ سن کر لوگ گمراہ ہو جائیں گے۔
جواب: کیسا گمراہی۔ ترجمہ عام فہم اور ہمارے اپنے مسلک کے عالم کا لکھا ہوا ہے۔ کہیں کچھ غلط ہے تو نشاندگی کیجئے۔ شیطانی نہیں۔
امیر: میرے زہن کا امتحان مت لو۔ مولوی صاحب، دیکھئے گا۔ اب سے یہ لوگ یہاں پر یہ کام نہ کریں۔
مولوی: چلو شاباش اب یہاں سے چلتے بنو۔ مجھے مسجد بند کرنی ہے۔ اگلی نماز سے پہلے کچھ عمل اور صفائی کے لیے۔
بےدخل ہوئے
یوں ہمیں اپنی ہی مسجد سے بےدخل کر دیا گیا۔ اتنی بڑی عمر کا امیر جو اپنی پوری زندگی اسلام کا نام استعمال کر کے تبلیغ کرتا رہا۔ اُسکی بداخلاقی کو دیکھ کر ہم تو ہکا بکا سا رہ گئے۔ اُس نے ہمارے درس قرآن کی ایسی نفی کی کہ ہمیں لگا کہ جیسے ہم کسی شیطان یا دشمن اسلام سے مخاطب ہیں۔ وہ اللہ کی کتاب کے آگ دیوار بن کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسا کہ اُسکو قرآن سے کوئی ذاتی دشمنی ہو۔
ہم سوچتے رہے کہ تبلیغی جماعت جس فضائل قرآن کی مثالیں اُچھال اُچھال کر بیان کرتی ہے۔ وہ ہی کام اگر ہم کرو تو اپنی ہی مسجد سے بےدخل کر دیے جاؤ گے۔ جو کام اِن تبلیغیوں نے خود نہیں کرنا۔ وہ نہ اوروں کو کرنے دینا ہے۔ یہ ہے اِنکا اسلام اور اِنکا ہے۔
اور اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ باندھے اور منکر حق ہو جبکہ سب اُسکے سامنے آ چکے۔ کیا جہنم نہیں ہے ٹھکانہ کافروں کا۔
سورة العنکبوت (۲۹) آیت ۶۸
اُس دن سے آج تک ہمارے درس قرآن پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس سے بھی بڑھ کر۔ تمام تبلیغی بھائی جو ہمارے ساتھ سہ روز چلہ لگا چکے تھے۔ اُن میں سے اکثر نے ہمارے ساتھ علیک سلیک تک کرنی بند کر دی۔ حلانکہ ہم کئی سالوں سے ایک ہی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے تھے۔ پھر بھی ہمیں اسلام علیکم ایسے کیا جاتا کہ شکریہ آپ رخصتی لیجئے۔
واجد بھیا تو میرے سے کہیں زیادہ وقت تبلیغی جماعت کو دے چکے تھے۔ اُنکی زندگی جیسے میں نے کہا زندگی ہی تبلیغ تھی۔ اُن سے یوں قطع کلامی۔ ایسا تو کوئی دشمن نہ کرے۔ جس طرح اُنکے ساتھ ہوا۔ مجھے خود سے زیادہ واجد بھیا پر رونا آیا۔ اُنکی زندگی کے تو بہترین سال ہی تبلیغی جماعت میں صرف ہوئے۔
بولا (شیطان): اچھا جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر میں آؤں گا انکے آگے پیچھے، دائیں بائیں سے، اور تو (اے خدا) ان میں سے اکثر کو ناشکرا پائے گا۔
سورة الأعراف (۱۷) آیات ۱۶ ت ۱۷
القرآن اور درس قرآن سے زیادہ سیدھی راہ کونسی ہو سکتی ہے۔ اور شیطان تو بیٹھ گیا اپنی جماعت لے کر۔ لیکن ہم نے ہمیشہ اُسکو دو چار سینگوں کی شکلوں والی مخلوق میں تلاش کیا۔ لیکن درحقیقت اُسکا اصل روپ ہمارے سامنے مذہبی علماء دین کی شکل میں آیا۔
سیدھی راہ پر قرآن کے فضائل بیان کرنے کے ڈھونگ میں قرآن ہی کو درس سے خارج کر ڈالا۔ یہ مطلب تھا شیطان کا آگے پیچھے سے آنے کا۔ آگے سے گشت میں تبلیغی بھیا جو گھر گھر جا کر دستک دیتے ہیں۔ اور پیچھے سے جیسے یہ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کے قصے کہانیاں اپنے ہاتھوں کی لکھی کتاب سے سناتے ہیں۔ جہاں پر قرآن کی باری آئے تو انکے ہاتھوں کو جیسے آگ چھوتی ہے۔ یہ قرآن سے ایسے دوڑتے ہیں جیسا شیطان آگ سے بھاگتا ہے۔
آیت کے آخر میں جیسا شیطان نے دعوا کیا کہ تو ان میں سے اکثر کو ناشکرا پائے گا۔ اُس ناشکرے پن کا تجربہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ قرآن سے ایسی ناشکری کہ اُس کے درس کو بےدخل کیا۔ جبکہ اپنی کتب پر مشتمل درس سے چیں چیں کرنا بند نہیں کرتے۔ وحی خدا موجود لیکن اپنے ہاتھوں کی لکھی کتب کو عام فہم کہنا۔ ایسا ہی ہے کہ کوئی شیطان اپنے ہاتھ سے مذہبی نامی کتاب لکھ چھوڑے۔ اور کہے، یہ دین اسلام کی باتوں کا بہترین مجموعہ ہے۔ پھر کہے تم اگر راہ راست پر آنا چاہتے ہو تو میری جماعت میں شامل ہو جاؤ۔
یہ تمام حقیقت شاید ہمارے سامنے نہ کھلتی۔ اگر ہم سچے دل سے جستجو کر کے قرآن کو اپنا حاکم صادر نہ کرتے اور اُسکے درس کو قائم نہ کرتے۔ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو پھر ہم ہرگز ہرگز نہ سمجھ پاتے کہ اسلام، اللہ، رسول کا نام لے کر تبلیغی جماعت جو بات کرتی ہے۔ وہ محض دینی لغت کو سلیقے سے استعمال کرنا ہے۔ جس کا مقصد عام مسلمانوں کے زہنوں سے کھلواڑ ہے۔ جب یہ کھیل مکمل ہو جاتا ہے تو سادہ لوح مسلمان خود شیطان کا ایک چیلا بن کر انکی تبلیغی جماعت میں شامل ہو جاتا ہے۔
زبان اور زہن کے اس کھیل میں مسلمان سمجھتا ہے کہ وہ اگر انکا انکار کرتا ہے تو معازاللہ جیسے خدا یا رسول کا انکار کرتا ہے۔ مسلمان کے زہن سے جو یہ فطری بدسلوکی کرتے ہیں۔ اُسکی ایک مثال یہ سادہ سا جملہ ہے "جا اللہ تجھے ہدایت دے"۔ اس کے بعد مسلمان سوچتا ہے شاید اُس کی ذات خدا کے آگے قبولیت کے قابل نہیں ہوئی کہ ابھی تک وہ اسلام کا کام کرتی تبلیغی جماعت کو ہاں نہیں کہہ پایا۔ جبکہ وہ شاید کبھی جان ہی نہ سکے کہ یہ سب شیطان کے چیلے ہیں۔ جو اُس شیطان کی خدا کو للکار کہ اے خدا تیرے اکثر انسان تیری سچی وحی پر ناشکرے ثابت ہوں گے کی روش کو قائم کرنے نکلیں ہیں۔
اکثر مسلمانوں کو تو یہ ٹھیک مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ اسلئے کہتے ہیں کہ ہم اصلاحی جماعت ہیں۔ تو اصلاح کس کی کرنے نکلے ہو۔ کہتے ہیں مسلمانوں کو کلمہ تک پڑھنا نہیں آتا۔ لوگوں کو نماز بھی ٹھیک سے نہیں آتی۔ فرائض غسل سے بھی ناواقف ہیں۔ یہ سب وہ جملے ہیں جو عام مسلمان کے زہنوں کے ساتھ ٹکرانے کے بعد وہ کھلواڑ کرتے ہیں کہ عام مسلمان انکے سامنے اپنی گردن جھکا دیتا ہے۔
حدیث سنا کر پہلے یہ مسلمان کے زہن پر ایسی بےشرمی سے قابو پانے کی کرتے ہیں کہ اگر تم اِن سے بحث کرو تو یہ آپکو یوں آنکھیں دکھاتے، شکل بناتے ہیں کہ جیسا تم اللہ اور رسول کے منکر ہو۔ جبکہ یہ سب انکی شیطانی حکمت عملی کا کھیل ہے۔
خود سوچو جس ازیت نما زہمت سے یہ عام مسلمان تبلیغ کے لیے گزارتے ہیں۔ کیا وہ کسی دین فطرت کا حصہ ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں، یہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی اپنی گمراہ کن سوچ تک لے جاتے ہیں۔ بیسیوں سال لگا کر بھی اکثر تبلیغی پانچ چھ نکات کے علاوہ کچھ سمجھ بول نہیں پاتے۔ سوائے اپنی چند کہانیوں کہاوتوں کے۔ جب وہ تبلیغ جماعت کو خیرآباد کرتا ہے۔ تو وہ بھی زہن سے یوں خارج ہو جاتی ہیں جیسا کہ کبھی وہ شخص خود بھی اُن باتوں کو نہیں جانتا تھا۔
اگر ان پر کوئی تنقید کرے تو یہ اُلٹا دوسروں کو شیعہ، قادیانی، کافر، یہودی، ہندو اور پتا نہیں کیا کیا لفظی لوازمات سے نوازتے ہیں۔ جب کچھ نہ بن پائے تو کہہ دیتے ہیں "جا اللہ تجھے ہدایت دے"۔ جیسا اللہ انکے ساتھ ہے۔ اللہ تو جانتا ہے کہ یہ شیطان مردو معلون کافر ابلیس کے ایجنٹ ہیں۔ جس کو پہلے اپنی نالائقی کی بنا پر آسمانوں سے ٹھوکر پڑی۔ اب یہ اُس ہی کے کام میں اسلام کا نام استعمال کر کے جڑے ہوئے ہیں۔ جو مسلمان قرآن تک آ جائے وہ تو پہچان جاتا ہے یہ سب ڈھونگی ہیں۔
میرا دل تو تبلیغی جماعت کا حصہ بننے سے بےدخل کئے جانے تک زخمی ہو چکا ہے۔ کیونکہ میں انکا اصلی چہرہ پہچان چکا ہوں۔ میں جان چکا ہوں کہ انکی سوچ اپنی ہی کتابیں، جن میں بچوں کی قصے کہانیوں کی مانند اُلٹی سیدھی باتیں درج ہیں وہاں تک محدود ہے۔
اب ایسی بنیادی سوچ سے اگر کوئی جاہل تبلیغی سیکھنے سکھانے کی بات کرے۔ تو وہ چاہے بیس سال لگائے یا چالیس وہ جاہل کا جاہل ہی رہتا ہے۔ اور چاہے کوئی کتنا ہی دیانت دار کیوں نہ ہو۔ اگر اُس کو دین کی الف ب تک کا فہم نہیں تو وہ اِنکی جماعت میں آ کر دین کا فہم تو حاصل کرنے سے رہا۔
یوں جاہل نکلے، جاہلوں کی تلاش میں، جاہلوں کی گروہ بندی کرنے۔ اب ایسی جہالت اور اندھیرے پر مبنی جماعت کیا اسلام پھلائے گی۔ وہ خود تو پہلے اپنی جماعت کی اصلاح کر لیں۔ جس جماعت میں قرآن کا درس نہیں اور وہ تبیلغ اسلام کی بات کرے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ شیطان خود کو سب سے پہلے مسلمان کہے۔ جبکہ شیطان نے اپنے ہی غرور سے خدا کے حکم کا انکار کیا اور کافر ہو گیا۔ ویسا ہی تبلیغی بھیا قرآن کا انکار کر کے شیطان کے عملی طور پر چیلے بنے بیٹھے ہیں۔
اگر میں تبلیغی جماعت کی برائے نام اصلاحی اور اُسکی قرآن دشمنی کو کیس قرآن کی آیت سے بیان کرنا چاہوں۔ تو وہ یہ ہو گی۔
یا پھر اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا۔ کہ اوپر موج چھائی ہوئی ہے۔ اس پر ایک اور موج اور اس کے اوپر بادل۔ تاریخی پر تاریخی مسلط ہے۔ آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اُسے بھی نہ دیکھ پائے۔ جسے اللہ نور نہ بخشے اس کے لیے پھر کوئی نور نہیں۔
سورة النور (۲۴) آیت ۴۰
اور بےشک تبلیغی جماعت جیسے قرآن کی تعلیم اور درس سے عاری ہے۔ اس طرح اللہ کے نور سے مکمل طور پر عاری ہے۔ جنکے سامنے قرآن موجود ہو اور وہ اُسکی تعلیم کی بجائے ڈھونگی تعاریفی فضائلی کلامات سے گزارا کریں۔ تو وہ جاہلوں کے اُس طبقے کی مانند ہیں جنکا استاد بھی جاہل اور اُس کی جماعت میں وقت لگانے والوں کی پود بھی جاہل۔
یوں جاہل برائے نام جاہلوں کو لے کر نکلے تبلیغ کرنے اسلام کی۔ اس سے اسلام پھیلے یا نہ پھیلے انکی جہالت ایک دوسری کی ہمنوائی کے لیے کافی ہے۔ یہ ظلم ہے جو تبلیغی بھیا لوگ مسلمانوں کے معاشرے میں رہ کر مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ انکی زہمت نما تاریخی نویت کی جاہلانہ سوچ نے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو شائستہ کر چھوڑا ہے۔ یہ زہمت لوگوں کے دلوں سروں سے تب ہی اُترے گی۔ جب تم لوگ خود اس جماعت کے منکر بن کر ازسرنو کلمہ حق پڑھو گے۔ اس شیطانی طزر کی کفریہ جماعت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرو گے۔ پھر ہی اللہ تمہاری مدد کرے گا۔
جواب دیں